Wednesday, November 24, 2021
Laagi Tum Se Dill Ki Lagan Novel Pdf
Tuesday, November 23, 2021
کبھی پھول تھی یہ زندگی
کبھی پھول تھی یہ زندگی
اب فقط جال ہے
کبھی عروج پر تھا کارواں
اب ہر جگہ زوال ہے
کبھی روشنی تھی دوست میری
اب خوشیوں کا کال ہے
کبھی راستے تھے منتظر میرے
اب کمزور اپنی چال ہے
کبھی وحشتوں میں سکوں بھی تھا
اب زندگی اک وبال ہے
کبھی تلوار بھی تھی نیام میں
اب بس اک ڈھال ہے
کبھی دوستوں کی کمی نہ تھی
اب اپنوں کا قحط و الرجال ہے ۔۔۔
بقلم نمرہ عباس
میرے عام سے کمرے میں
میرے عام سے کمرے میں
یادوں کی الماری ہے
جہاں چند کتابیں سجی ہیں
کچھ پڑھ لی گئی ہیں
کچھ کو پڑھنے کی باری ہے
میرے عام سے کمرے میں
ایک میز بھی ہے نام کی
بس ایک خالی مگ پڑا ہے
اور کوئی شے نہیں کام کی
میرے عام سے کمرے میں
کونے پر ایک آئینہ بھی رکھا ہے
جانے کیوں پھر بھی
کمرہ ادھورا سا لگتا ہے
میرے عام سے کمرے میں
چند پرانے کھلونے بھی رکھے ہیں
بچپن کو اپنے میں نے
گویا سمبھال رکھا ہے
میرے عام سے کمرے میں
ابھی کچھ کمی باقی ہے
پردوں کا رنگ خاکی ہے
میرے عام سے کمرے میں
سجاوٹ کی گنجائش باقی ہے
اور کھڑکی سے آتی سرد ہوا
اکثر گرم موسم میں
میرے دل کو لبھاتی ہے
میرے عام سے کمرے میں
۔۔۔۔
از قلم نمرہ عباس۔
اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا ہے .
اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا ہے
کانٹوں سے الجھ کر جینا ہے پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے
شاید وہ زمانہ لوٹ آئے شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں
ان اجڑی اجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے
یہ سوز دروں یہ اشک رواں یہ کاوش ہستی کیا کہی
مرتے ہیں کہ کچھ دن جی لیں ہم جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے
اک شہر وفا کے بند دریچے آنکھیں میچے سوچتے ہیں
کب قافلہ ہائے خندۂ گل کو ان راہوں سے گزرنا ہے
اس نیلی دھند میں کتنے بجھتے زمانے راکھ بکھیر گئے
اک پل کی پلک پر دنیا ہے کیا جینا ہے کیا مرنا ہے
رستوں پہ اندھیرے پھیل گئے اک منزل غم تک شام ہوئی
اے ہم سفرو کیا فیصلہ ہے اب چلنا ہے کہ ٹھہرنا ہے
ہر حال میں اک شوریدگیٔ افسون تمنا باقی ہے
خوابوں کے بھنور میں بہہ کر بھی خوابوں کے گھاٹ اترنا ہے
مجید امجد