Wednesday, November 24, 2021

Laagi Tum Se Dill Ki Lagan Novel Pdf

The novel Laagi Tum Se Dill Ki Lagan is written by Shahnaz Saddique

Laagi tum se dil ki lagan novel by Shahnaz Saddique is a social romantic novel by the writer 

She has written many stories and has large number of fans waiting for her novels 

Shahnaz has written in many digest like Kiran Shuaa Khawateen Anchal Hijjab and many more 

Shahnaz is very famous for her unique writing style 

Mostly writer shows the reality and stories which are around us 

They have such ability to guide us through their words and stories 

I hope you enjoy Laagi Tum Se Dill Ki Lagan novel pdf and will recommend it to your friends on social media and  here is her novel to download 

 Download Link



Tuesday, November 23, 2021

کبھی پھول تھی یہ زندگی

 کبھی پھول تھی یہ زندگی 

اب فقط جال ہے 

کبھی عروج پر تھا کارواں 

اب ہر جگہ زوال ہے 

کبھی روشنی تھی دوست میری 

اب خوشیوں کا کال ہے 

کبھی راستے تھے منتظر میرے 

اب کمزور اپنی چال ہے 

کبھی وحشتوں میں سکوں بھی تھا 

اب زندگی اک وبال ہے

کبھی تلوار بھی تھی نیام میں 

اب بس اک ڈھال ہے 

کبھی دوستوں کی کمی نہ تھی 

اب اپنوں کا قحط و الرجال ہے ۔۔۔

بقلم نمرہ عباس

میرے عام سے کمرے میں

 میرے عام سے کمرے میں 

یادوں کی الماری ہے 

جہاں چند کتابیں سجی ہیں 

کچھ پڑھ لی گئی ہیں 

کچھ کو پڑھنے کی باری ہے 

میرے عام سے کمرے میں 

ایک میز بھی ہے نام کی 

بس ایک خالی مگ پڑا ہے

 اور کوئی شے نہیں کام کی 

میرے عام سے کمرے میں 

کونے پر ایک آئینہ بھی رکھا ہے 

جانے کیوں پھر بھی 

کمرہ ادھورا  سا لگتا ہے 

میرے عام سے کمرے میں 

چند پرانے کھلونے بھی رکھے ہیں 

بچپن کو اپنے میں نے 

گویا سمبھال رکھا ہے 

میرے عام سے کمرے میں

 ابھی کچھ کمی باقی ہے 

پردوں کا رنگ خاکی ہے 

میرے عام سے کمرے میں

 سجاوٹ کی گنجائش باقی ہے 

اور کھڑکی سے آتی سرد ہوا

اکثر گرم موسم میں 

میرے دل کو لبھاتی ہے 

میرے عام سے کمرے میں 

 ۔۔۔۔


از قلم نمرہ عباس۔

اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا ہے .

 اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا ہے 

کانٹوں سے الجھ کر جینا ہے پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے 

شاید وہ زمانہ لوٹ آئے شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں 

ان اجڑی اجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے 

یہ سوز دروں یہ اشک رواں یہ کاوش ہستی کیا کہی

مرتے ہیں کہ کچھ دن جی لیں ہم جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے 

اک شہر وفا کے بند دریچے آنکھیں میچے سوچتے ہیں 

کب قافلہ ہائے خندۂ گل کو ان راہوں سے گزرنا ہے 

اس نیلی دھند میں کتنے بجھتے زمانے راکھ بکھیر گئے 

اک پل کی پلک پر دنیا ہے کیا جینا ہے کیا مرنا ہے 

رستوں پہ اندھیرے پھیل گئے اک منزل غم تک شام ہوئی 

اے ہم سفرو کیا فیصلہ ہے اب چلنا ہے کہ ٹھہرنا ہے 

ہر حال میں اک شوریدگیٔ افسون تمنا باقی ہے 

خوابوں کے بھنور میں بہہ کر بھی خوابوں کے گھاٹ اترنا ہے

مجید امجد